دونوں طرف سے کامیابی کے پیشگی دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج 4 بجے طلب کیا گیا ہے، پنجاب اسمبلی میں مہمانوں کا داخلہ بند ہوگا، میڈیا پریس گیلری سے کوریج کرے گا، موبائل فون لے جانے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔
پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے نومنتخب 15، مسلم لیگ ن کے 3 اور ایک آزاد رکن نے حلف اٹھا لیا جو ووٹنگ میں حصہ لیں گے۔
17 جولائی کو ہونے والے ضمنی الیکشن کے بعد پنجاب میں اپوزیشن کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے، پی ٹی آئی کے 178 اور مسلم لیگ ق کے10 ارکان کو ملا کر اپوزیشن ارکان کی تعداد 188 ہوگئی ہے۔
ضمنی الیکشن میں4 نشستوں پر کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن کے پنجاب میں168ارکان ہوگئے تاہم ایک رکن نے ابھی حلف نہیں اٹھایا ہے اور اس کا ووٹ کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔
اگر اس رکن نے حلف اٹھالیا تو ن لیگ168، پیپلزپارٹی7، آزاد 3 اور راہ حق پارٹی کے ایک ووٹ کےساتھ حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد179بنتی ہے۔
پنجاب اسمبلی میں آج ہونے والے وزیر اعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو خط لکھ کر سکیورٹی کا مطالبہ کردیا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی حدود اور ایوان میں بھی پولیس تعینات کی جائے ، تمام سکیورٹی انتظامات یقینی بنائے جائیں تاکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق وزیراعلیٰ کا انتخاب کرایا جاسکے۔
دوسری جانب تحریکِ انصاف اور ق لیگ کے مشترکہ امیدوار پرویز الہیٰ کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی کہانی ختم، جو مرضی کرلیں ، یہ گیم ہار چکے ہیں، جس نے بھی شہباز شریف کو سپورٹ کیا ان سب کا بیڑا غرق ہوگیا۔
پرویز الہٰی نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ کو نقب لگانے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی، اکثریت ہمارے ساتھ ہے ، شہباز شریف کے زیرِ سایہ حمزہ شہباز نے جو کیا وہ تاریخ میں سیاہ حروف میں لکھا جائے گا۔
یاد رہے کہ یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو ہوگا۔
زرائع کے مطابق، وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن ’رن آف‘ کی طرز پر ہوگا یعنی جو بھی امیدوار زیادہ ووٹ لے گا وہ وزیراعلیٰ منتخب ہوجائے گا۔
